کہتے ہیں کہ غالب کا ہے انداز بیاں اور آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیا ل میں غالب صریر خامہ نوائے سروش ہے زبان اور لہجے کے چابک دستغالبغالب کے بارے میں عبادت بریلوی لکھتے ہیں” ، فنکار ہیں۔ اردو روزمرہ اور محاورے کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ اس کی سادگی دل “میں اتر جاتی ہے۔ عبدالرحمن بجنوری لکھتے ہیں کہ” ،ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں ”وید مقدس“ اور “”دیوان غالب“ ۔ کی حیثیت ایک ررخشاں ستارے کی سی ہے۔ انہوں نےغالباردو شاعری میں مرزا اردو شاعری میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ اسے نئے نئے موضوعات بخشے اور اس میں ایک انقالبی لہر دوڑا دی۔ ان کی شاعری میں فلسفیانہ خیاالت جا بجا ملتے ہیں۔ غالب ایک فلسفی ذہن کے مالک تھے۔ انہوں نے زندگی کو اپنے طور پر سمجھنے کی بھر پور کوشش کی اور ان کے تخیل کی بلندی اور شوخی فکرکا راز اس میں ہے کہ وہ انسانی زندگی کے نشیب و فراز کوشدت سے محسوس کرتے ہیں۔ انسانی زندگی کQے مختلف پہلوئوں کا گہرا شعور رکھتے ہیں ۔ اس غالب کے بنیادی مQعامQالت و مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں۔ اس کی ان گنت گQتھQیوں کو سلجھا دیتے ہیں۔ انسان کو اس کی عظمت کا احساس دالتے ہیں اس کو اپنے پیروں پر کQھڑا ہونا سکھQاتے ہیں ۔ اور نظام کائنات میں اس کQونئے آسمانوں پر اڑاتے ہیں۔ غالب کی شاعری اس اعتبار سے بہت بلند ہے اور اس مQیں شبہ نہیں کہ ان کی شاعر ی کQے انہیں عناصر نے اُن کو عظمت سے ہمکنار کQیا ہے۔ لیکن جس طرح ان کی شاعری مQیں ان سب کا اظہار و ابالغ ہوا ہے۔ وہ بھQی اس کو عظیم بنانے میں برابر کے شریک ہیں۔ غالب کQی شاعری کا اثرحواس پر شدت سے ہوتا ہے وہ ان میں غیر شعوری طور پرایک ارتعاش کQی سی کQیفیت پیدا کرتی ہے اور اسی ارتعاش کی وجہ سے اس کے پڑھنے اور سننے والے کے ذہن پر اس قسم کی تصویریں ابھرتی ہیں ۔ ان کے موضوع میں جووسعتیں اور گہرائیاں ہیں اس کا عکس ان کQے اظہار و ابالغ میں بھQی نظرآتا ہے۔ ان گنت عناصر کے امتزاج سے اس کی تشکیل ہوتی ہے۔